مشہور و معروف اردو ناقد گوپی چند نارنگ کے انتقال کی خبر نے دنیائے ادب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ جیسے ہی 91 سالہ گوپی چند نارنگ کے امریکہ میں انتقال کی خبر سامنے آئی، سوشل میڈیا پر غم کی لہر دوڑ گئی۔ فیس بک اور ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارم پر ان کے چاہنے والے اپنی یادیں شیئر کرنے لگے اور تعزیت کا ایک دراز سلسلہ شروع ہو گیا۔ واٹس ایپ گروپس پر بھی لگاتار گوپی چند نارنگ کی روح کو سکون پہنچنے کی دعائیں کی جا رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ کافی دنوں سے بیمار تھے۔
اردو شاعری کے مقبول پلیٹ فارم ’ریختہ‘ نے اپنے آفیشیل ٹوئٹر ہینڈل پر گوپی چند نارنگ کے انتقال کی خبر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ہمیں آپ سب کو یہ بتاتے ہوئے تکلیف ہو رہی ہے کہ اردو کے نامور نقاد، نظریہ ساز اور ماہر لسانیات پروفیسر گوپی چند نارنگ کا انتقال ہو گیا ہے۔ ہم ان کے اہل خانہ اور چاہنے والوں سے اپنی گہری تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘ مشہور شاعر شکیل اعظمی نے ان کے انتقال پر اپنا ایک شعر پیش کرتے ہوئے لکھا ہے ’’باری باری سبھی کردار بجھے جاتے ہیں/ ایک راوی سے کہانی کا جہاں روشن ہے۔‘‘ پھر وہ لکھتے ہیں ’’اردو کے آخری بڑے نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نہیں رہے۔ ایشور ان کی روح کو سکون دے۔‘‘
غور طلب ہے کہ گوپی چند نارنگ کی کم و بیش پانچ درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ وہ چھ ہندوستانی زبانیں جانتے تھے اور اپنی پرکشش تقریر کے لیے پہچانے جاتے تھے۔