سپریم کورٹ نے آج ایک عرضی پر سماعت کے دوران کہا کہ جبراً مذہب کی تبدیلی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس سے ملک کی سیکورٹی متاثر ہو سکتی ہے اس لیے ضروری اقدام کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 22 نومبر تک حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔
دراصل سپریم کورٹ جبراً مذہب تبدیلی کو روکنے کے لیے داخل عرضی پر سماعت کر رہا تھا۔ یہ عرضی سپریم کورٹ کے وکیل اور بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے نے گزشتہ 23 ستمبر کو داخل کیا تھا۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے جبراً اور دھوکہ دے کر مذہب تبدیلی روکنے کے لیے سخت قانون بنانے کے لیے مرکزی حکومت کو ہدایت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس ہیما کوہلی نے 14 نومبر کو اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے زبانی تبصرہ میں کہا کہ جبراً مذہب تبدیلی نہ صرف ملک کی سیکورٹی کو، بلکہ شہریوں کی مذہبی آزادی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ یہ بے حد سنگین ایشو ہے اور مرکزی حکومت کو اس معاملے میں داخل عرضی پر اپنا اسٹینڈ واضح کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جو ایشوز اٹھائے گئے ہیں اور جبراً مذہب تبدیلی کے جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، اگر وہ درست ہیں تو پھر یہ سنگین معاملہ ہے۔ اس لیے مرکزی حکومت حلف نامہ دے کر بتائے کہ وہ مبینہ جبراً مذہب تبدیلی کے لیے کیا قدم اٹھا رہی ہے۔