فرانس کے چرچ میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال پر مبنی گزشتہ 70 سالوں کا گناہ منظر عام پر آنے کے بعد ملک میں ہلچل مچی ہے۔ ایک طرف فرانسیسی حکومت کو لگاتار تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، دوسری طرف بشپ کانفرنس کے سربراہ اپنے متنازعہ بیان کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔ اس درمیان حکومت نے بشپ کانفرنس سربراہ کو طلب کیا ہے۔ دراصل انھوں نے کہا ہے کہ چرچ میں ملزم کے ذریعہ اعترافِ گناہ (کنفیشن) قانون سے بالاتر ہے۔

کیتھولک چرچ کے پادریوں اور اسٹاف کے ذریعہ بچوں کے جنسی استحصال پر مبنی رپورٹ جاری ہونے کے بعد مانسگنر ایرک ڈی مولنس-بیوفورٹ نے فرانس-انفو ریڈیو پر کہا تھا کہ قبول نامے کی رازداری جمہوریہ کے قانون سے زیادہ اہم ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ رپورٹ میں کمیشن نے چرچ سے فرانس کے قانون کی عزت کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔ اس درمیان حکومت فرانس کے ترجمان گیبرل ایٹل نے جمعرات کو واضح لفظوں میں کہا تھا کہ فرانس کے قانون سے کچھ بھی بالاتر نہیں۔ بشپ کانفرنس سربراہ کو اگلے ہفتے وزیر داخلہ گیرالڈ ڈرمینن سے ملنے کے لیے کہا گیا ہے۔ واضح رہے کہ فرانس روایتی طور سے رومن کیتھولک ملک ہے، لیکن وہاں 1905 کے قانون کے مطابق چرچ کو ملک سے الگ رکھتے ہوئے سخت جمہوری عوامی زندگی پر عمل کیا جاتا ہے۔ کیتھولک عقیدہ کے مطابق کنفیشن کی رازداری اہم ہے۔ اس لیے چرچ نے جنسی استحصال کے ملزمین کے کنفیشن کی جانکاری دینے سے انکار کر دیا ہے۔