آسام میں ملزمین کے مکانات پر بلڈوزر چلائے جانے کے معاملہ پر گزشتہ 17 نومبر کو گواہاٹی ہائی کورٹ میں انتہائی اہم بحث ہوئی۔ دراصل بلڈوزر کارروائی پر ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاستی حکومت سے پوچھا ہے کہ کس قانون کے تحت ایسی کارروائی کی گئی؟ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ چیف جسٹس آر ایم چھایا اور جسٹس سومتر سائیکیا نے پولس سپرنٹنڈنٹ کی طرف سے 5 مسلم ملزمین کے مکانات پر کی گئی بلڈوزر کارروائی کو لے کر آسام کی ہیمنت بسوا سرما حکومت سے جواب مانگا ہے۔
نیوز پورٹل ’بار اینڈ بنچ‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریاستی حکومت کے وکیل نے پولس سپرنٹنڈنٹ کی طرف سے کی گئی کارروائی پر ایک رپورٹ عدالت میں سونپی۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ’’آپ ہمیں کوئی کریمنل ایکٹ دکھائیں جس کے تحت جرم کی جانچ کرتے ہوئے بغیر کسی حکم کے پولس بلڈوزر سے کسی شخص کو اکھاڑ سکتی ہے۔‘‘
دراصل جن 5 مسلم ملزمین کے گھر پر بلڈوزر چلانے کا مبینہ حکم پولس نے دیا تھا، ان پر پولس تھانہ کو نذرِ آتش کرنے کا الزام ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ’’کم از کم میں نے اپنے چھوٹے کیریر میں ایسا معاملہ نہیں سنا۔ میں نے کسی پولس افسر کو تلاشی وارنٹ کے طور پر بلڈوزر چلاتے نہیں دیکھا۔‘‘ چیف جسٹس نے طنزیہ انداز میں یہ بھی کہا کہ ’’اپنے ایس پی کی کہانی فلم ہدایت کار روہت شیٹی کو دے دیجیے، ہو سکتا ہے وہ اُن پر ایک اچھی فلم بنا دیں۔‘‘