’’آج ایک شاندار واقعہ پیش آیا۔ میں نے اس شخص کو اپنے گھر بلایا تھا تاکہ صوفے سے متعلق کچھ کام کراؤں۔ وہ اپنی تمام مشینیں لے کر آیا۔ کام شروع کرنے ہی والا تھا کہ اس نے اپنی گھڑی دیکھی اور مجھ سے پوچھا– سر، نماز پڑھ لوں؟ میں نے جواب دیا– بالکل جی۔‘‘ یہ ایک غیر مسلم کا بیان ہے جس کا نام ہے ستندر سنگھ۔ انھوں نے اس واقعہ کے تعلق سے کئی سلسلہ وار ٹوئٹس کیے جس میں صوفہ ٹھیک کرنے والے مزدور کے اعتقاد کی تعریف بھی کی۔
ایسے ماحول میں جب ہندو-مسلم منافرت بڑھتی جا رہی ہے، خوش اخلاقی کی مثالیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ اتندر سنگھ نے مسلم صوفہ مزدور کے ساتھ جس اپنائیت کا مظاہرہ کیا، وہ بھی ایک ایسی ہی مثال ہے۔ اتندر اپنے اگلے ٹوئٹ میں لکھتے ہیں ’’(نماز پڑھنے کی اجازت ملنے پر) وہ بہت خوش ہوا۔ اور اس کی خوشی نے مجھے خوش قسمت ہونے کا احساس کرایا۔‘‘
ایک دیگر ٹوئٹ میں اتندر لکھتے ہیں ’’کون اچھا ہے اور کون برا، یہ فیصلہ کرنے والے ہم کون ہیں؟ نماز کے لیے اس کی لگن ناقابل یقین ہے۔ وہ دن میں 5 بار نماز پڑھتا ہے جو مسلمانوں کے لیے لازمی ہے۔ حتی کہ صاحب شری گرو گرنتھ میں بھی اس (نماز) کا تذکرہ ہے۔‘‘ پھر آخری ٹوئٹ میں وہ یہ پیغام دینا بھی نہیں بھولتے کہ ’’تمام ہندوستانیوں سے ایک عاجزانہ گزارش ہے۔ برائے مہربانی ہندو-مسلم کرنا چھوڑ دیں۔ یہ آپ کو کسی بھی چیز میں مدد نہیں کرے گا۔ محبت پھیلاؤ، نفرت نہیں۔‘‘