مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں جبریہ حجاب معاملے پر مظاہرہ کسی بھی صورت کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہ مظاہرہ اب 100 سے زائد شہروں میں پھیل چکا ہے اور مظاہرین ایرانی حکومت کو چِڑھانے کے لیے ایسی ایسی حرکتیں کر رہے ہیں جس پر ملک میں پابندی ہے۔ ان مظاہروں کو ختم کرنے کے لیے حکومت بھی الگ الگ طریقے اختیار کر رہی ہے۔ مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے چھوڑے جا رہے ہیں، انھیں حراست میں لیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ مظاہرین کی آنکھوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق پولس مظاہرین پر پیلٹ اور بلیٹ گن کا استعمال کر رہی ہے۔ اس سے کئی لوگوں کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دو ماہ میں 500 سے زائد مظاہرین آنکھوں کی روشنی سے محروم ہو چکے ہیں۔ ایسے حالات میں ایران کا نوجوان طبقہ بہت مایوس اور ناراض ہے۔ دن بہ دن حکومت کے خلاف ان کی نفرت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مظاہرین نوجوان سڑکوں پر ممنوعہ عمل انجام دے رہے ہیں۔

ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مظاہرین ہر وہ کام سڑکوں پر کرتے دکھائی دے رہے ہیں جو ایران میں منع ہے۔ مثلاً لڑکیاں بغیر حجاب کے باہر نکل رہی ہیں اور لوگ سرعام بوسہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس وجہ سے ایرانی حکومت اور مظاہرین کے درمیان تلخی میں بھی لگاتار اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔