(گزشتہ 3 اپریل کو شائع خطبہ کا باقی حصہ مطالعہ فرمائیں)
اس پر بعض حاضرین نے عرض کیا، حضور! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غربا اس ثوابِ عظیم سے محروم رہیں گے)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی یا چھوارے کے ایک دانہ پر یا پانی کے ایک گھونٹ پر ہی کسی کو افطار کرا دے (یعنی پیٹ بھر کھلانے پر یا کسی اچھی چیز سے روزہ افطار کرانے پر موقوف نہیں)۔
(پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا) اس مہینہ کا ابتدائی حصہ باعث رحمت اور دوسرا حصہ باعث مغفرت اور آخری حصہ نارِ جہنم سے آزادی کا سبب ہے۔ جو شخص اپنے غلام و خادم سے اس مہینہ میں کام ہلکا لے گا اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیں گے اور اس کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دیں گے۔
پس تم رمضان کے مہینہ میں چار کام زیادہ کیا کرو۔ دو وہ جن سے تم اپنے مالک کو راضی کر سکو گے، اور دو وہ جن کی تم کو خود احتیاج ہے۔ سو پہلے دو کام (جن سے اللہ کی رضا تم کو حاصل ہوگی) یہ ہیں کہ خدا کی وحدانیت کی شہادت دو، اور اس سے اپنے گناہوں کی مغفرت و معافی طلب کرو (یعنی کلمہ توحید اور استغفار کی اس مہینہ میں کثرت رکھو)۔ اور دوسری دو (جن کی تم کو ضرورت ہے) یہ ہیں کہ اس سے جنت کا سوال کرو اور دوزخ سے پناہ مانگو۔ (صحیح ابن حزیمہ و بیہقی)
(ماخوذ: برکات رمضان، مصنف محمد منظور عثمانی)