جن اعلیٰ ترین خصوصیات کی بنا پر یہ امت ’خیر امت‘ قرار پائی، ان میں اخلاق حسنہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف کی پاکیزہ سیرت سے ناواقفیت کے نتیجہ میں ہم اخلاق کے شعبہ میں بھی پچھڑتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں عیدالاضحیٰ کے موقع پر بذریعہ ٹرین گھر جانا ہوا۔ میرا ریزرویشن تھا، لیکن میرے متعلقین کی سیٹیں کنفرم نہیں تھیں۔ لہٰذا وہ میری سیٹ پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں سامان سے لدے پھندے دو صاحبان ڈبے میں داخل ہوئے اور بے ترتیبی سے اپنا سامان ادھر ادھر ٹھونسنا شروع کر دیا۔ وہ اس بات سے بالکل ہی بے نیاز تھے کہ ان کی اس حرکت سے لوگوں کو پریشانی ہو رہی ہے۔ اچانک انھوں نے مجھے سیٹ خالی کرنے کو کہا۔ بولے ’’میرے پاس چار سیٹیں ہیں اور میرے لوگوں کو بیٹھنے میں دشواری ہو رہی ہے۔‘‘ میں سخت ملول ہوا اور دوسری جگہ بیٹھ گیا۔ ان صاحب کو اتنے پر بھی چین نہ آیا اور ٹی ٹی ای سے شکایت کرنے لگے۔ جب ٹی ٹی ای نے ڈانٹ پلائی تب جا کر وہ خاموش ہوئے۔
ٹرین جب مراد آباد اسٹیشن پر رکی تو ایک وضعدار شخص کوچ میں داخل ہوئے۔ اپنا سامان درست کرنے کے بعد وہ قریب آ کر بیٹھ گئے۔ دوران گفتگو جب انھیں پتہ چلا کہ ہماری سبھی سیٹیں کنفرم نہیں، تو انھوں نے اپنی اضافی سیٹ مجھے پیش کر دی۔ ان کا یہ بلند اخلاق دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ ’اکرام مسلم‘ کا جذبہ ہر کسی کے اندر کیوں نہیں پایا جاتا!
(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)