یہ ان دنوں کی بات ہے جب بفضلہٖ تعالیٰ میرا سلیکشن ملک کی مشہور یونیورسٹی جے این یو کے ایم اے (اردو) کورس میں ہوا تھا۔ چنانچہ میں طائر شوق بن کر گاؤں کی فضاؤں کو الوداع کہتا ہوا دہلی کے لیے روانہ ہو گیا۔ میں دہلی میں مقیم اپنے بھائی انوار احمد کے ہمراہ جیسے ہی مین گیٹ سے کیمپس کے اندر داخل ہوا وہاں کی خوبصورتی دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔

میں جے این یو کے حسین نظاروں میں گم تھا کہ اچانک سامنے ’نیو ایڈمیشن‘ کی صدا بلند کرتے دو طالب علم سامنے آئے۔ ان رضاکار طلبہ نے ہمارا پرتپاک خیر مقدم کیا اور ایڈمیشن ڈیسک تک لے گئے۔ وہاں موجود ایک سینئر طالب علم نے مجھے اپنا کال لیٹر لے کر کاؤنٹر پر جانے کہا۔ وہاں فیس سلپ کٹنے کے بعد جب واپس آیا تو اس نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا ’’آپ کا کام ختم ہو گیا، اب آرام سے یہاں بیٹھیے۔‘‘ اور پھر اس اجنبی محسن نے میرا ایڈمیشن فولیو بھرا اور مجھے لے کر ایڈمیشن روم میں داخل ہوا۔ وہاں مجھ سے ’مائیگریشن سرٹیفکیٹ‘ مانگا گیا جو اتفاق سے میرے پاس نہیں تھا۔ اسٹاف نے میرا داخلہ لینے سے منع کر دیا۔

اس صورت حال کے لیے میں بالکل تیار نہیں تھا۔ ایسے وقت میں اس اجنبی یعنی اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سربراہ ’ساہو‘ نے میری ہمت بندھائی اور مجھے رجسٹرار آف ایڈمیشن کے چیمبر میں لے جا کر میری پریشانی بتائی اور اسے میرے ایڈمیشن کے لیے راضی کر لیا۔

’ملتے ہیں ایسے لوگ سفر میں کبھی کبھی‘

(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)