ایک بوڑھا نابینا شخص حسرت و یاس کی تصویر بنا گھر کے باہر بیٹھا چپکے چپکے رو رہا تھا۔ نڈھال جسم اور شکستہ حال چہرے کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ کئی دن سے بھوکا ہے۔ اس راستے سے گزرنے والے لوگوں نے اسے اس حال میں دیکھا، لیکن کوئی خاص توجہ نہیں دی۔

اتفاقاً اس راستے سے امیرالمومنین حضرت عمر ابن خطاب کا گزر ہوا۔ غمزدہ بوڑھے کو دیکھ کر دریافت کیا ’’کیوں روتے ہو بھائی، کیا دُکھ ہے تمھیں؟‘‘ بوڑھے نے کہا ’’تین دنوں سے ایک شخص کا انتظار ہے۔ وہ بہت نیک انسان ہے۔ میرے ساتھ وہ حسن اخلاق سے پیش آتا ہے۔ خدا جانے وہ کیوں نہیں آیا؟‘‘

حضرت عمرؓ نے بوڑھے سے پوچھا ’’اس نیک آدمی کا نام کیا ہے؟‘‘ بوڑھے نے جواب دیا ’’میں نے کئی بار نام پوچھنے کی کوشش کی، لیکن اس نے نہیں بتایا۔ بس یہی کہتا تھا کہ– اللہ کا بندہ ہوں، اللہ کے بندوں کے کام آتا ہوں۔‘‘

’’وہ آ کر میرے گھر کی صفائی کرتا تھا، کپڑے دھوتا تھا، مجھے کھلاتا پلاتا تھا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بوڑھا رونے لگا۔ اس نے ایک سرد آہ بھری اور پھر گویا ہوا ’’پتہ نہیں تین دنوں سے وہ کیوں نہیں آیا؟ ضرور کسی تکلیف میں ہوگا۔ اے اللہ اس پر رحم فرما۔‘‘

حضرت عمرؓ سمجھ گئے کہ یہ خلیفۃ الرسول حضرت ابو بکر صدیقؓ ہی ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے مغموم ہو کر فرمایا ’’وہ ہمارے خلیفہ حضرت ابو بکرؓ تھے۔ آج ان کے انتقال کو تین دن ہو گئے ہیں۔‘‘

(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)