انیسویں صدی کے وسط کی بات ہے۔ پھلواری شریف (پٹنہ) میں دو رئیس رہتے تھے۔ ایک کا نام قاضی غلام اور دوسرے کا قاضی مخدوم عالم تھا۔ دونوں رشتہ دار تھے۔ کسی وجہ سے دونوں میں جھگڑا ہو گیا اور مقدمہ بازی کی نوبت آ گئی۔ قاضی مخدوم سرکاری ملازمت میں تھے۔ اس دوران ان کا تبادلہ دور کے مقام پر ہو گیا جہاں سے مقامی عدالت میں تاریخوں پر حاضری مشکل تھی۔ انھوں نے چاہا کہ اپنے مقدمہ کی پیروی کے لیے کسی کو مقرر کر دیں۔ جب کوئی مناسب آدمی سمجھ میں نہیں آیا تو وہ فریق مخالف قاضی غلام کے پاس گئے اور کہا ’’میرا تبادلہ ایسی جگہ ہو گیا ہے جہاں سے مقدمہ کی پیروی ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ تمام کاغذات آپ کے حوالے ہیں۔ اب آپ ہی میری طرف سے مقدمہ کو دیکھیں۔‘‘ یہ کہہ کر قاضی مخدوم سفر پر روانہ ہو گئے۔

قاضی غلام کے لیے فریق مخالف کے اس اعتماد کو مجروح کرنا ناممکن تھا۔ انھوں نے قاضی مخدوم کے مقدمہ کی پیروی کا کام اپنے ذمہ لیا اور خود اپنے کاغذات کسی دوسرے کے حوالے کر دیے۔ اب صورت یہ ہو گئی کہ قاضی غلام کے مقدمہ کی پیروی تو دوسرا شخص کر رہا ہے، اور وہ خود اپنے فریق مخالف کی طرف سے مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود مقدمہ ہار گئے اور ان کے مخالف قاضی مخدوم جیت گئے۔ یقیناً یہ اخلاق کی اعلیٰ ترین مثال ہے کہ انسان اپنے اصولوں کی خاطر اپنے خلاف فیصلے پر راضی ہو جائے۔

(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)