انبیاء کی جماعت کے بعد جن عظیم انسانوں نے اپنے حسن اعمال سے اخلاقی قدروں کو سربلندی عطا کی ان میں دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمر ابن خطابؓ کا نام سنہری حروف سے لکھے جانے لائق ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد مسلمانوں نے آپ کو اپنا امیر بنایا۔ اپنی دس سالہ دور خلافت میں آپ نے رعایا کی فلاح و بہبودی کے لیے ایسے مثالی اقدامات کیے جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔

ایک مرتبہ آپ رعایا کی خبر گیری کے لیے حسب معمول رات میں گشت پر نکلے ہوئے تھے۔ اچانک آپ کو ایک جھونپڑی میں آگ جلتی دکھائی دی۔ دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت نے چولہے پر دیگچی چڑھا رکھی ہے اور پاس میں تین بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ آپ نے بڑھیا سے پوچھا کہ کھانا کب بن کر تیار ہوگا۔ اس نے جواب دیا کہ دیگچی میں پانی کے سوا کچھ نہیں۔ غریب بڑھیا سے دریافت کیا ’اپنی حالت سے خلیفہ کو باخبر نہیں کیا؟‘ جواب ملا کہ ’میرے اور عمر کے درمیان اللہ انصاف کرے گا۔‘

یہ جواب سننا تھا کہ آپ الٹے پاؤں واپس ہوئے۔ بیت المال سے آٹے کی بوری، شکر اور گھی ساتھ لیا اور اس عورت کے پاس آئے۔ خود کھانا بنا کر انھیں کھلایا۔ بچے کھا کر سو گئے تو اس بڑھیا نے تشکر آمیز لہجے میں کہا کہ خلیفہ تو تمھیں ہونا چاہیے۔ آپ نے فرمایا ’بڑی بی، عمر میں ہی ہوں۔‘ یہ کہہ کر آپ واپس ہوئے اور اس عورت کا وظیفہ مقرر کر دیا۔

(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)