ہماری آج کی گفتگو اس عظیم المرتبت شخصیت سے منسوب ہے جنھیں تاریخ حضرت عثمان غنیؓ کے نام سے جانتی ہے۔ آپ خلیفۂ سوم ہونے کے ساتھ ساتھ ان خوش نصیب افراد میں بھی شامل ہیں جنھیں زبان نبوت سے جنتی ہونے کی بشارت ملی۔

طبقات ابن سعد کے مطابق آپؓ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ آپؓ حافظ قرآن، جامع القرآن اور ناشر القرآن بھی ہیں۔ آپ کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں آئیں۔ اس اعزاز کے سبب آپ کو ذوالنورین بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے حسن اخلاق سے متعلق کئی واقعات مشہور ہیں۔ ان میں سے دو پیش خدمت ہیں۔

مدینہ میں مسلمانوں کو میٹھے پانی کی بڑی قلت تھی۔ وہاں صرف ایک میٹھے پانی کا کنواں تھا جس کا نام ’بئیر رومہ‘ تھا جو ایک یہودی کی ملکیت میں تھا۔ پیارے رسولؐ نے فرمایا کہ جو شخص اس کنویں کو خرید کر اللہ کے راستے میں وقف کر دے، اس کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔‘‘ حضرت عثمان غنیؓ نے اس کنویں کو خرید کر فی سبیل اللہ وقف کر دیا۔

ایک مرتبہ سخت قحط پڑا۔ سبھی پریشان تھے۔ اسی دوران سیدنا عثمان غنی کے 1000 اونٹ غلے سے لدے ہوئے آئے تو مدینہ کے تمام تاجر جمع ہو گئے۔ تاجروں نے کئی گنا زائد قیمت پر غلے کو خریدنے کی پیشکش کی لیکن آپ نے فرمایا ’’مجھے اس سے بھی زیادہ نفع ملتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر تمام غلہ اللہ کی راہ میں فقراء مدینہ کو دے دیا۔ رضی اللہ عنہ۔

(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)