حضرت علی ابن ابی طالب کا شمار ان چار اصحاب میں ہوتا ہے جنھیں اسلامی تاریخ خلفائے راشدین کے مبارک نام سے یاد کرتی ہے۔ حضرت علیؓ کے فضائل بے شمار ہیں۔ آپ رسول اللہؐ کے چچازاد بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے داماد بھی تھے۔ بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا۔ جب پیارے رسولؐ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت اسلام پیش کی اور ان سے فی سبیل اللہ استعانت طلب کی، تو پوری محفل پر سکوت طاری ہو گیا۔ ایسے میں حضرت علیؓ نے کھڑے ہو کر کہا: ’’میری عمر بہت کم ہے، میری آنکھیں دُکھتی ہیں اور میری ٹانگیں پتلی ہیں، پھر بھی میں آپؐ کا ساتھی بننے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

آپؓ کے اخلاق حسنہ سے متعلق کئی واقعات مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک حسب ذیل ہے… کسی جنگ کے موقع پر آپ اپنے حریف پر غالب آ گئے اور اسے زمین پر پچھاڑ کر اس کے سینے پر چڑھ گئے۔ عنقریب تھا کہ آپ اسے قتل کر دیتے۔ اچانک اس نے آپؓ کے چہرہ پر تھوک دیا۔ اس گستاخانہ حرکت پر آپ کے نفس کو ناگواری محسوس ہوئی۔ اب آپ نے اسے چھوڑ دیا اور پیچھے ہٹ گئے۔ دشمن نے حیران ہو کر پوچھا– آپ نے مجھے کیوں چھوڑا؟ آپؓ نے فرمایا– تجھ سے میری دشمنی اسلام کے لیے تھی۔ جب تو نے میرے چہرے پر تھوکا تو میری ذات درمیان میں آ گئی۔ میں اپنی ذات کے لیے تجھ سے انتقام نہیں لے سکتا۔ رضی اللہ عنہ۔