حضرت مصعب بن عمیرؓ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنھیں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کا پہلا مبلغ بننے کی سعادت عطا فرمائی۔ ایمان لانے سے قبل آپ بہترین لباس اور خوشبوؤں کے دلدادہ تھے۔ حلقۂ ایمان میں داخل ہونے کے بعد اپنی عظیم قربانیوں کے سبب رسول کریمؐ کی آنکھوں کے تارے بنے۔
ہجرت سے قبل آپ کو رسول اللہؐ نے مبلغ بنا کر مدینہ روانہ کیا۔ آپ نے ایک سال کی مختصر سی مدت میں حسن اخلاق کا پیکر بن کر اہل مدینہ کے دلوں کی دنیا بدل دی۔ ایک دن آپ بنی ظفر کے ہاں درس و تدریس میں مصروف تھے جب اسید بن النضر نامی شخص آیا اور نہایت غصے کے عالم میں کہا ’’آپ کو کس نے اجازت دی ہے کہ ہمارے سادہ لوح عوام کے ایمان کو خراب کرتے پھرو۔‘‘
حضرت مصعب نے اس زیادتی پر کسی منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا، بلکہ نہایت ادب کے ساتھ کہا ’’آپ ذرا تشریف رکھیں اور ہماری بات سنیں۔ پسند آئے تو ٹھیک، ورنہ جیسا آپ کا حکم۔‘‘ اس انداز تکلم نے اسید بن النضر کے دل پر کچھ ایسا اثر کیا کہ وہ وہیں بیٹھ گئے۔ آپؓ نے نہایت پرسوز آواز میں چند قرآنی آیات تلاوت فرمائیں۔ پھر شیریں لہجہ میں اسلامی تعلیمات کو اس انداز دلبری کے ساتھ بیان فرمایا کہ اسید بن النضر کا پتھر دل موم ہو گیا۔ وہ بے اختیار بول اٹھے ’’کیا ہی پاکیزہ تعلیم ہے اور کیا ہی خوب مذہب ہے۔‘‘ کلمہ شہادت پڑھا اور دین کے حلقے میں شامل ہو گئے۔
(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)