کورونا وائرس نے جن نیک انسانوں کو ہم سے چھین لیا ان میں سے ایک میرے خان انکل بھی تھے۔ والد گرامی کے قریبی دوستوں میں شامل محمد تاج الدین انصاری عرف خان انکل شہر داناپور کی معزز شخصیات میں سے ایک تھے۔ ان سے متعلق متعدد واقعات ایسے ہیں جو بھلائے نہیں بھولتے۔ ان میں سے ایک واقعہ حسب ذیل ہے۔
میرے بورڈ امتحان کا سنٹر داناپور تھا اور میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ روزانہ اپنے گاؤں سے داناپور جا سکوں۔ لہٰذا والد محترم نے یہ مسئلہ خان انکل کے سامنے رکھا اور انھوں نے بلاتامل مجھے اپنے یہاں آنے کی دعوت دے ڈالی۔ میں امتحان سے ایک دن قبل ان کے دولت خانہ پر پہنچ گیا۔ امتحان کے دوران خان انکل اور ان کی اہلیہ نے جس غایت درجہ خلوص اور اپنائیت کے ساتھ میری میزبانی کی اسے یاد کرتے ہوئے آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ آج کے اس مادہ پرست دور میں لوگ اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی حسن اخلاق کے ساتھ پیش نہیں آتے، اور یہاں صرف ایمانی رشتے کی بنیاد پر محبتیں لٹائی جا رہی تھیں۔
انٹرمیڈیٹ کے بعد بی اے اور ایم اے کے دوران بھی اکثر ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ وہ ہمیشہ والہانہ انداز میں مسکراتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوتے۔ جب کبھی میری کوئی تحریر نظر سے گزرتی تو وہ اپنی بے پناہ مسرتوں کا اظہار کرتے اور اپنی دعاؤں سے نوازتے۔ آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کا حسن اخلاق اور ہنستا مسکراتا چہرہ ذہن سے اوجھل نہیں ہونے پاتا۔
(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)