شاعر مشرق علامہ اقبال کو دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزر چکا، لیکن ان کی حکیمانہ شاعری کے رموز و نکات سے ادبی دنیا ابھی تک کسب فیض نہیں کر سکی ہے۔ اقبال اس لیے بھی عظیم تھے کہ انھوں نے زندگی کی جن اعلیٰ ترین اخلاقی قدروں کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے، ان کا واضح عکس ان کی شخصیت میں بھی نظر آتا ہے۔ مثلاً احترام انسانیت، ہمدردی و خدا ترسی، والدین کی خدمت اور اساتذہ کی عزت و تکریم علامہ کی شخصیت کا وصف خاص تھا۔ مولوی سید میر حسن کا شمار ان صالح نفوس میں ہوتا ہے جنھوں نے علامہ کی ذہنی و فکری تربیت فرمائی۔ اقبال تا زندگی ان کے ممنونِ احسان رہے۔ ان کا یہ شعری مولوی میر حسن کو بہترین خراج عقیدت تھا:
مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں
جب علامہ اقبال کی عالمگیر مقبولیت کے پیش نظر حکومت برطانیہ نے انھیں ’سر‘ کا خطاب دینا چاہا تو انھوں نے شرط رکھ دی کہ پہلے ان کے استاذ مولوی میر حسن کو ’شمس العلماء‘ کا خطاب دیا جائے۔ حکومت کی جانب سے پوچھا گیا کہ مولوی میر حسن کا علمی کارنامہ کیا ہے؟ شاعر مشرق نے جواب دیا ’’ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ’اقبال‘ ہے۔‘‘ اس منطقی انداز بیان نے حکومت برطانیہ کو لاجواب کر دیا اور انھوں نے علامہ کو ’سر‘ کا خطاب دینے کے ساتھ ساتھ مولوی میر حسن کو بھی ’شمس العلماء‘ کے خطاب سے نوازا۔