امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد اخلاقی اعتبار سے انتہائی دلآویز شخصیت کے مالک تھے۔ مولانا آزاد دنیوی جاہ و جلال سے مزین ہونے کے باوجود کسی پروٹوکول کے پابند نہیں رہے اور احترام انسانیت کے معاملے میں کبھی آداب شاہی کو خاطر میں نہیں لائے۔ ترجمان القرآن سمیت سینکڑوں کتابوں کے مصنف مولانا آزاد کو جب صبح آزادی کے طلوع ہونے کے بعد ملک کا پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا تو یہ قیاس کیا جانے لگا کہ وہ جلد ہی سیاسی رنگ میں رنگ جائیں گے اور ان کی تمام انقلابی باتیں قصۂ ماضی بن جائیں گی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور مولانا اتنے بڑے منصب پر ہونے کے باوجود اخلاقی قدروں کے امین بنے رہے۔

پروفیسر ہمایوں کبیر نے مولانا کی فقیرانہ زندگی کا احوال نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک بار مولانا اپنی رہائش گاہ پر چند لوگوں کے مسائل سے باخبر ہو رہے تھے۔ اتنے میں ان کے مشیر خاص نے آ کر اطلاع دی کہ پنڈت نہرو آپ سے ملنے آ رہے ہیں۔ یہ سن کر وہاں موجود افراد اٹھ کر جانے لگے۔ مولانا نے انھیں بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا اور اپنے مشیر سے فرمایا کہ نہرو جی کو مہمان خانے میں بٹھاؤ، ہم دس منٹ میں آتے ہیں۔ اس کے بعد وہ حسب معمول ان ملاقاتیوں سے گفتگو میں مصروف ہو گئے۔

مولانا کے اس قصے میں ہمارے ان ملی و سیاسی قائدین کے لیے بہترین سبق پوشیدہ ہے جو دنیوی جاہ و منصب کے ہاتھ آتے ہی ارباب اقتدار کی خوش نودی کو اپنا مقصد حیات بنا لیتے ہیں۔

(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، دہلی)