جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں داخلے کے شروعاتی دنوں میں میرے ساتھ کچھ ایسے واقعات پیش آئے جنھیں میں سخت دھوپ کے درمیان شجر سایہ دار سے تعبیر کرتا ہوں۔ یہ اگست 2008 کی بات ہے۔ جے این یو کے شعبۂ اردو میں میرا داخلہ ہو چکا تھا اور وہاں ہاسٹل کی سہولیات ہونے کے سبب مجھے امید تھی کہ جلد ہی ہاسٹل مل جائے گا۔ لیکن میری ایڈمیشن رینک بہت اچھی نہ ہونے کے سبب یہ ممکن نہیں ہو پایا۔

پہلے سیمسٹر کی کلاسز شروع ہو چکی تھیں اور میں عارضی ٹھکانے کی تلاش میں بھٹک رہا تھا۔ ایسے ہی پریشان کن حالات میں میری ملاقات رئیس الدین بھائی سے ہوئی جو میرے بھائی کے دوستوں میں تھے اور دہلی کے مہیپال پور علاقے میں رہتے تھے۔ مجھے انھوں نے اپنے یہاں رہنے کی جگہ دی جہاں میری ملاقات ان کی اہلیہ، رخسانہ آپا اور دیگر احباب سے ہوئی۔ میں یہ دیکھ کر جذبۂ تشکر سے بھر گیا کہ انتہائی معمولی آمدنی کے ساتھ زندگی گزارنے والے یہ لوگ اخلاق کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے اور میری میزبانی اس طرح کر رہے تھے گویا میں ان کا قریبی رشتہ دار ہوں۔

وقت گزرتا گیا اور میرا نام ہاسٹل لسٹ میں آ گیا۔ میں رئیس بھائی کے اہل خانہ سے رخصت کی اجازت لینے پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان لوگوں نے میری ضرورت کے چند سامان میرے بریف کیس میں رکھ دیے ہیں۔ میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن ان لوگوں کی بے غرض محبت نے مجھے کچھ بولنے نہ دیا۔

(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)