رسول کریم علیہ السلام جب مکہ سے ہجرت کر مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاں نثاروں کی عظیم تعداد بھی تھی جو محض اللہ کے دین کی خاطر بے گھر ہوئے اور بیوی-بچوں سے جدائی عمل میں آئی۔ اصحاب کی یہ غربت دیکھ کر رحمت کائناتؐ نے انصار مدینہ اور مہاجرین کے درمیان ’مواخات‘ (بھائی چارہ) قائم کر دیا۔ پھر انصار مدینہ نے اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ ایسا عظیم اخلاق پیش کیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا کی تاریخ قاصر ہے۔
حسن اخلاق کا شاندار نمونہ پیش کرتے ہوئے مشہور انصاری صحابی سعد بن ربیع نے دینی بھائی عبدالرحمن بن عوف سے کہا: میں مدینے کا سب سے مالدار تاجر ہوں۔ میری دو بیویاں ہیں۔ ایک کو طلاق دے کر آپ کے نکاح میں دیتا ہوں۔ میرے پاس دو باغ بھی ہیں، ان میں سے ایک آپ کے حوالے کرتا ہوں۔
عبدالرحمن نے فرمایا: اللہ آپ کے اہل و عیال اور مال میں برکت دے۔ مجھے بس بازار کا راستہ دکھا دیں۔ عبدالرحمن بازار سے کچھ پنیر اور گھی لے آئے۔ اسے کچھ منافع لے کر فروخت کر دیا۔ اس طرح آپ کی تجارت ترقی کرتی گئی اور وہ وقت بھی آیا جب مدینے کی گلیوں میں آپ کے قافلے پہنچتے تو شور سن کر لوگ اکٹھے ہو جاتے۔ آپ کی تجارت میں کامیابی کا راز انفاق فی سبیل اللہ تھا، جس سے ان کا مال گھٹتا نہیں تھا۔ آپ نے مختلف مواقع پر اللہ کے راستے میں 400000 درہم، 500 گھوڑے اور 1500 اونٹ صدقہ کیے۔ (رضی اللہ عنہم)
(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)