ماہِ رمضان کو رخصت ہوئے ابھی چند ہی روز ہوئے ہیں لیکن مسلم معاشرہ کا ماحول یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا موسم بہار میں خزاں کی آمد ہو گئی ہے۔ عبادت گاہوں سے نمازی رخصت ہو کر دنیا کی مادی رونقوں میں گم ہو چکے ہیں۔ کل تک تلاوت قرآن کی دلنواز صداؤن سے گلزار رہنے والی مسجدیں اب ویران نظر آتی ہیں۔ لیکن ذہن اب بھی ان مبارک ساعتوں کی یاد سے فارغ نہیں ہوتا جن کا تعلق اخیر عشرہ کی طاق راتوں سے ہے۔
اس موقع پر دہلی کے شاہین باغ کی مسجد الہدایہ کا ذکر اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس میں موجود افراد کی نہایت خاموشی کے ساتھ ضیافت کا فریضہ انجام دے رہے عیش محمد بھائی کو دیکھ کر بچپن کے وہ دن یاد آ گئے جب ہم بھی چائے اور بسکٹ کی لالچ میں اخیر عشرہ کی شب بیداری میں شریک ہوتے تھے۔ یہ جان کر مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ موصوف یہ خدمت کئی سالوں سے انجام دے رہے ہیں۔
نیم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عیش محمد بھائی دین پسندانہ ذہن رکھنے کے ساتھ ہی کئی خوبیوں کے مالک ہیں۔ اکرام مسلم کو عملی سطح پر برتنے والے ایسے لوگ اب ہمارے معاشرہ میں خال خال ہی نظر آتے ہیں جنھیں عبادت الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ ہی یہ فکر بھی دامن گیر رہتی ہے کہ کس طرح قوم کے نونہالوں کو شعار اسلام سے قریب کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مخلصانہ کوششوں کو قبول فرمائے۔
(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)