اس دنیا میں جتنے بھی نبی اور رسول آئے، سبھی اخلاقِ حسنہ کا نمونۂ کامل تھے۔ اس عظیم ترین انسانی گروہ میں سے جن کے تفصیلی واقعات قرآن حکیم میں بیان ہوئے ہیں ان میں حضرت یوسف علیہ السلام کا نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ حضرت یوسفؑ کے قصے میں اخلاقی قدروں سے محروم ہو چکی دنیا کے لیے بہترین نمونہ موجود ہے۔ اس تاریخی قصے کی ابتدا وہاں سے ہوتی ہے جب معصوم یوسف کو وہ سچے خواب آتے ہیں جن پر مشیت نے نورانی حجاب ڈال رکھا تھا۔ اس کے بعد آپ کی آزمائشوں کا طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یوسفؑ بھائیوں کے بغض و عناد کا شکار ہوتے ہیں۔ پھر آپ کو بازارِ مصر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ بفضلہٖ تعالیٰ عزیز مصر کے یہاں راحت بخش ٹھکانہ مل جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں— حسن اخلاق کا نمونہ: صاحبِ خلق عظیم–حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (ڈاکٹر آفتاب احمد منیری)

یہاں ایک نئی آزمائش آپ کی منتظر تھی۔ عزیز مصر کی اہلیہ آپ پر فریفتہ ہوتی ہے۔ اس فتنے سے بچنے کے لیے آپ قید زنداں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اتنی آزمائشوں کے بعد حضرت یوسفؑ کے اوپر عنایاتِ ربی کی بارش ہوتی ہے۔ آپ مصر کے وزیر خزانہ بنائے جاتے ہیں۔ اور پھر وہ وقت آتا ہے جب آپ کے سنگ دل بھائی آپ کے پاس سوالی بن کر آتے ہیں اور آپ حسن اخلاق کا نمونۂ کامل بن کر فرماتے ہیں ’’آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ اللہ تمھیں بخشے، وہ سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے۔‘‘ (سورۃ یوسف: 92) رب کریم ہمیں بھی عفو و درگزر کی اس عظیم روایت کا امین بنائے۔ آمین۔

(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)