آج کی دوڑتی بھاگتی زندگی کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ وہ اعلیٰ ترین اخلاقی قدریں، جن پر ہمارے معاشرہ کی بنیادیں مستحکم ہوتی تھیں، ان کا دور دور تک نشان نظر نہیں آتا۔ ایسے پرآشوب دور میں ان بزرگوں کے تذکرے ذہنی سکون عطا کرتے ہیں جنھوں نے اپنے بلند اخلاق سے دلوں پر حکومت کی۔ داناپور کینٹ، پٹنہ کے قریب واقع بستی شیرپور کے باشندہ مولانا محمد حمزہؒ ایسے ہی ایک عالم باصفا تھے۔ مولانا پیشے سے تاجر تھے۔ مال سلامی، پٹنہ سے راشن کا مال اٹھاتے اور داناپور کی دکانوں میں پہنچاتے۔ اس درمیان راستے میں جہاں نماز کا وقت ہوتا، وہیں کسی مسجد کے باہر ٹھیلا لگا کر نماز باجماعت ادا کر لیتے۔
ایک بار بی این آر مسجد کے باہر راشن کا ٹھیلا کھڑا کیا اور نماز کے لیے مسجد میں داخل ہو گئے۔ نماز کے بعد ٹھیلے سے چاول کی ایک بوری غائب پایا۔ آپ کوئی ہنگامہ کیے بغیر ٹھیلا لے کر روانہ ہو گئے۔ چند دنوں بعد آپ کو پتہ چل گیا کہ بوری کس نے غائب کی۔ آپ اسی وقت چاول کی دو بوریاں لے کر اُس کے گھر پہنچ گئے۔ دروازہ پر انھیں دیکھ کر اُس شخص کی حالت خراب ہونے لگی۔ مولانا نے تسلی دی اور فرمایا: ’’گھبراؤ نہیں، تم کو چاول کی ضرورت تھی تو مجھ سے کہتے۔ یہ حرکت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ لو 2 اور بوریاں رکھ لو۔‘‘
مولانا محمد حمزہؒ کی یہ وسعت قلبی اور ان کا بلند کردار آج کے مادہ پرست معاشرہ میں انسانیت کی شمع فروزاں کرتا ہے۔