حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی جن صفات عالیہ کی بنا پر پوری انسانی تاریخ میں ممتاز ہیں، ان میں مہمان نوازی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ آپ کی مہمان نوازی کے تذکرے کتاب مبین میں بھی موجود ہیں۔ سورہ ہود کی یہ آیت بھی اسی ضمن میں نازل ہوئی:
’’اور آ چکے ہیں ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر۔ بولے سلام ہے۔ وہ بولے سلام ہے۔ پھر دیر نہ کی، لے آیا ایک بچھڑا تلا ہوا۔‘‘ (سورہ ہود-79)
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے دنیا میں مہمان نوازی کی رسم جاری فرمائی۔ آپ کی رہائش شام کے شہر حلب میں تھی۔ آپ کے پاس بہت ساری بکریاں ہوتی تھیں۔ آپ اپنے مہمانوں کو انہی بکریوں کا دودھ پلاتے اور ان کی تواضع کرتے۔ جب اجنبی انسانوں کی شکل میں فرشتے ان سے ملاقات کے لیے پہنچے تو حضرت ابراہیم ان کا تعارف حاصل کرنے سے قبل ہی ان کی خاطر و مدارات میں جٹ گئے۔ ان کے لیے فوراً ایک موٹا تازہ دنبہ ذبح کیا اور اس کا لذیز مرغن گوشت تیار کر کے ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ تب انھیں پتہ چلا کہ یہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں۔
قرآن کی متعدد آیات میں حضرت ابراہیم کی مہمان نوازی کا تذکرہ نہایت دلکش انداز میں ہوا ہے۔ انسانوں کی شکل میں آنے والے فرشتوں کو حضرت ابراہیم کا ’مہمان‘ (ضیف) کہا گیا ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابراہیم نے ان کے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کیا۔
(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)