حجاب تنازعہ، موب لنچنگ اور مسلمانوں پر مظالم سے متعلق واقعات پر مسلم طبقہ ہمیشہ اپنی آواز بلند کرتا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام وغیرہ پر بھی مسلم نوجوان بڑے جوش و ولولے کے ساتھ اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور یہ تبصرے خوب شیئر بھی ہوتے ہیں۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے امت مسلمہ کے نوجوان اپنے برادران کے لیے فکر مند اور اسلامی اقدار کے پابند ہیں۔ لیکن ایک مسلم خاتون صحافی نے اس معاملے میں انتہائی فکر انگیز ٹوئٹ کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے ’’فیس بک اور ٹوئٹر پر امت کے نوجوانوں کے جوش اور جذبے کو دیکھ کر ان پر فخر ہوتا ہے، اور مسجد کی ویرانگی دیکھ کر امت کے حال پر رونا آتا ہے۔ اور ہم انتظار کر رہے ہیں اللہ کی مدد کا؟‘‘
یہ ٹوئٹ فریلانس صحافی، سماجی کارکن اور ٹیپو سلطان پارٹی کی سوشل میڈیا (سنبھل ضلع) کنوینر سعدیہ پروین نے کیا ہے۔ انھوں نے اس ٹوئٹ میں امت مسلمہ کو درس دیتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’لوگو، اپنے رب سے تعلق جوڑو، حالات کا تعلق حکام سے نہیں ہمارے اعمال سے ہے۔‘‘ ان کے اس ٹوئٹ سے ظاہر ہے کہ وہ مسلم طبقہ کی مساجد سے دوری پر افسردہ ہیں۔ وہ مسلم طبقہ کے حالت زار کے لیے اسلام سے ہو رہی ان کی دوری کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں۔ یہ بات سچ بھی ہے کیونکہ جمعہ کی نماز میں مساجد کی رونق دیکھیے، اور پھر دیگر نمازوں میں مساجد کی ویرانی کا مشاہدہ کیجیے۔