کرناٹک کے شیوموگا میں 15 اگست کو ونایک دامودر ساورکر کی تصویر پر ہوئے تنازعہ سے پیدا فرقہ وارانہ کشیدگی ہنوز برقرار ہے۔ 18 اگست تک شیوموگا میں کرفیو بھی نافذ ہے اور اس جگہ پر پولس فورس تعینات ہے جہاں ساورکر کا پوسٹر لگایا گیا تھا، جسے کچھ لوگوں نے ہٹا دیا۔ اس درمیان سیاسی لیڈروں کی بیان بازیاں جاری ہیں جو حالات کو مزید کشیدہ کر رہی ہیں۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر ایس. ایشورپا نے بھی منگل کے روز مسلمانوں کے تئیں نفرت انگیز اور دھمکی بھرے بیانات دیے۔
ایشورپا نے 16 اگست کو اپنے بیان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے لیے ’کچھ مسلم غنڈوں‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور متنبہ کیا کہ ’’ہندو سماج کو کمزور نہیں مانا جانا چاہیے۔ اگر پورا طبقہ ایک ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے تو وہ زندہ نہیں رہ پائیں گے۔‘‘ انھوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ’’ہندوؤں پر حملہ کرنے اور انھیں مارنے کی کوششیں لگاتار جاری ہیں۔ میں نے اس طرف وزیر اعلیٰ کی توجہ مبذول کرائی ہے۔‘‘
حالانکہ بی جے پی لیڈر ایس ایشورپا نے یہ بھی کہا کہ سبھی مسلمان غنڈے نہیں ہیں، بلکہ حال کے دنوں میں کچھ باہری لوگوں نے شیوموگا کا ماحول خراب کیا ہے۔ شیوموگا سے رکن اسمبلی رہ چکے ایشورپا نے اس درمیان مسلم طبقہ کے بزرگوں سے کہا کہ وہ اپنے ان بچوں کی رہنمائی کریں جو غلط راستے پر چلے گئے ہیں۔ ورنہ ہندو سماج اگر واقعی میں کھڑا ہو گیا تو مسلم غنڈے نہیں بچیں گے۔