کانگریس کے سینئر لیڈر سلمان خورشید کے خلاف شدت پسند ہندوؤں کا غصہ اپنے عروج پر ہے۔ حالات کی خطرناکی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سلمان خورشید کے نینی تال واقع گھر پر آگ لگا دی گئی۔ واقعہ 15 نومبر کا ہے اور اس کی جانکاری خود انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دی۔ اب سلمان خورشید کا ایک انٹرویو سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ’’اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہندوتوا کیا کر سکتا ہے، تو میرے نینی تال میں جلے گھر کے دروازے دیکھ لیجیے۔‘‘
سلمان خورشید کا انٹرویو معروف صحافی راجدیپ سردیسائی نے لیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’’جن لوگوں نے (میری کتاب سے) عدم اتفاق ظاہر کیا ہے وہ اس سطح تک پہنچ گیا ہے کہ نینی تال میں جو میرا گھر ہے اس کا دروازہ جلا دیا گیا۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جو میں کہہ رہا تھا وہ درست ہے؟ ایسے میں یہ سمجھنا ہوگا کہ جسے وہ ہندوتوا کہتے ہیں، وہ ہندو مذہب کی تردید کرتا ہے۔ جو ہوا ہے اس سے میرا بیان پوری طرح سے صحیح ثابت ہوتا ہے۔‘‘
دراصل سلمان خورشید کی نئی کتاب ’سنرائز اوور ایودھیا‘ میں ہندوتوا کا موازنہ آئی ایس آئی ایس اور بوکو حرم جیسی تنظیموں سے کیا گیا ہے، اسی پر شدت پسند ہندو آگ بگولہ ہیں۔ حالانکہ سلمان خورشید کے مطابق انھوں نے دونوں کو ایک جیسا نہیں کہا، بلکہ کچھ مماثلت کی بات کہی ہے۔