’’میں مسجد کے اندر بیٹھ کر قرآن پڑھ رہا تھا۔ تین لوگ آئے اور جئے شری رام کا نعرہ لگانے کہا۔ میں نے انکار کر دیا۔ پھر انھوں نے میری پٹائی کی۔ تینوں مجھے گھسیٹ کر مسجد کے ایک کونے میں لے گئے۔ میں بیہوش ہو گیا اور اسپتال پہنچنے کے بعد ہوش آیا۔ غنڈہ گردی کرنے والے تینوں لوگوں نے نقاب پہنا ہوا تھا۔‘‘ یہ بیان مہاراشٹر کے جالنہ واقع گاؤں انوا کی ایک مسجد کے امام ذاکر سید کا ہے۔ ذاکر سید کے ساتھ یہ واقعہ 26 مارچ کی شام پیش آیا اور شرپسندوں نے ان کی داڑھی بھی کاٹ دی۔
اس معاملے میں پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی ہے اور تحقیقات شروع ہو گئی ہے۔ لیکن اس واقعہ سے مسلم طبقہ میں زبردست ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ امام صاحب جب مسجد میں قرآن پڑھ رہے تھے تو وہاں اور کوئی موجود نہیں تھا۔ اچانک تین لوگ مسجد میں داخل ہوئے اور امام صاحب سے زبردستی ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کو کہا۔ امام صاحب نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، اور پھر نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اس معاملے میں سماجوادی پارٹی لیڈر ابو عاصم اعظمی نے مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کے نام ایک خط لکھا ہے۔ اس خط کو انھوں نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر پوسٹ بھی کیا ہے۔ خط میں ابو عاصم اعظمی نے فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے والے شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔