تقریباً ایک ماہ قبل فرانس کے شہر گرینوبل نے سوئمنگ پول میں مسلم خواتین کو ’برکینی‘ پہننے کی اجازت دے دی تھی۔ اس فیصلے پر خوب ہنگامہ ہوا اور معاملہ عدالت تک پہنچ گیا۔ پہلے ذیلی عدالت میں اس پر سماعت ہوئی اور پھر سپریم کورٹ نے گزشتہ 21 جون کو گرینوبل شہر کے فیصلے کو رد کر دیا۔ اب اس تعلق سے ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ کچھ لوگ ’برکینی‘ کی حمایت میں آواز اٹھا رہے ہیں، تو کچھ پابندی کو درست ٹھہرا رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ برکینی ایک ایسا ’فل باڈی سوئم سوٹ‘ ہے جس کو پہننے سے چہرہ، ہاتھوں کے پنجے اور پیروں کے ذیلی حصے کو چھوڑ کر باقی سبھی جسمانی اعضاء چھپ جاتے ہیں۔ برکینی لفظ ’برقع‘ اور ’بکنی‘ الفاظ کو ملا کر بنایا گیا ہے۔ یہ لباس کافی حد تک برقع سے ملتا جلتا ہے۔ برکینی کا استعمال مسلم خواتین اسلامی ضابطے کو پیش نظر رکھتے ہوئے کرتی ہیں۔ وہ اسے پہن کر سوئمنگ پول میں نہانے کے لیے جاتی ہیں۔ کئی ممالک میں مسلم خواتین برکینی کا استعمال کر رہی ہیں۔
غور طلب ہے کہ برکینی کا ایجاد لبنان نژاد آسٹریلیائی مسلم فیشن ڈیزائنر اہیدا جانیٹی نے 2004 میں کیا تھا۔ فرانس نے اس پر 2016 میں پابندی عائد کر دی تھی۔ اس وقت تک جانیٹی کی کمپنی ’اہیدا‘ پوری دنیا میں تقریباً 7 لاکھ برکینی فروخت کر چکی تھی۔ 2016 میں ایک انٹرویو کے دوران جانیٹی نے یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ برکینی کے 40 فیصد خریدار غیر مسلم ہیں۔