نئی دہلی: دہلی کی ادبی برادری نے عرصے بعد ایسی دلکش اور زندہ ادبی محفل دیکھی ہوگی جب نوجوان شاعر سفیر صدیقی کے شعری مجموعے ’خوابوں کے مرثیے‘ پر مذاکرے کے لیے نئے پرانے ادبی ستاروں کی ایک تابناک کہکشاں سجی۔ ایک ایسی بزم جس کی صدارت عہد حاضر کے سب سے بڑے غیر افسانوی نثر نگار پروفیسر خالد محمود نے فرمائی۔ پروفیسر شہپر رسول جیسے ممتاز شاعر کے دستِ مبارک سے سفیر صدیقی کے شعری مجموعے کا اجرا عمل میں آیا۔ ممتاز وجودی فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید نے بحیثیت مہمانِ خصوصی انجمن کی رونق میں اضافہ کیا۔ صاحبِ طرز ادیب و نقاد حقانی القاسمی نے بحیثیت مہمانِ اعزازی شرکت کی۔ اس مذاکرے کی نظامت ادیب و شاعر ڈاکٹر خالد مبشر نے کی۔
اس موقع پر پروفیسر خالد محمود نے سفیر صدیقی کو موت اور زندگی کا ایک پختہ کار شاعر قرار دیتے ہوئے کہا کہ سفیر کی شاعری میں زیادہ تر موت اور اس کے لوازم تلاش کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے کلام میں زندگی کی دوسری جہتیں زیادہ روشن بھی ہیں اور توانا بھی۔
اس جلسے میں سفیر صدیقی کے مجموعۂ کلام پر ایک زندہ، بامعنی اور ذہانت آمیز ادبی ڈسکورس کی بزم بپا ہوئی۔ اس میں معین شاداب، ڈاکٹر فیضان شاہد، عبدالباری صدیقی، تفسیر حسین، ذیشان رضا اور جمیل سرور جیسے نئی نسل کے ذہین اور باصلاحیت اسکالروں نے سفیر کے تخلیقی امتیازات پر مکالمہ قائم کیا۔ عبدالرحمٰن عابد، فیض رضوی، وسیم رفیع، داؤد احمد اور آصف بلال نے کلامِ سفیر کے انتخاب اور اس کی بلند خوانی سے مذاکرے کی فضا مزید سازگار کر دی۔