انڈونیشیا کی مسجد کونسل نے مساجد میں لگے لاؤڈاسپیکر سے متعلق ایک سخت فیصلہ لیا ہے۔ اس فیصلہ کا اثر تقریباً 70 ہزار ایسے مساجد پر پڑا جہاں لاؤڈاسپیکر کا استعمال ہوتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والے اس ملک میں لاؤڈاسپیکر سے تیز اذان کی شکایتیں لگاتار مل رہی تھیں۔ ان شکایتوں پر سنجیدگی سے غور و خوض کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ پتہ چلا کہ لاکھوں مساجد کے لاؤڈاسپیکر خراب ہیں۔ پھر 7000 ٹیکنیشینز کو کام پر لگایا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 70000 مساجد کے لاؤڈاسپیکر کی آواز کم ہو گئی۔
انڈونیشیا مسجد کونسل کے سربراہ یوسف کلّا کا کہنا ہے کہ ملک کی 7.5 لاکھ مساجد میں سے بیشتر کا ساؤنڈ سسٹم ٹھیک نہیں تھا۔ اس کی وجہ سے اذان کی آواز ضرورت سے زیادہ تیز آتی تھی۔ مسجد کونسل کے کو-آرڈینیٹر نے اذان کی تیز آواز کو اسلامی روایت سے جوڑا اور درست ٹھہرایا، لیکن جکارتہ کی الاکوان مسجد کے چیئرمین احمد توقیف کا کہنا ہے کہ لاؤڈاسپیکر کی آواز کم کرنا بالکل ٹھیک ہے۔
اذان کی تیز آواز سے متعلق آن لائن شکایتیں لگاتار مل رہی تھیں۔ انڈونیشیا کی ایک مسلم خاتون کا کہنا ہے کہ ہر رات 3 بجے لاؤڈاسپیکر بجنے کی وجہ سے انھیں انجائٹی ڈِسارڈر ہو گیا۔ فجر کی اذان سے 40-30 منٹ پہلے ہی لاؤڈاسپیکر سے لوگوں کو اٹھانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ لوگ کھل کر شکایت نہیں کرتے کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے، یا پھر جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔