برطانیہ کی بورس جانسن حکومت پر پاکستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمنٹ نصرت غنی نے سنگین الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’مجھے مسلم ہونے کے سبب فروری 2020 میں کنزرویٹو پارٹی کی حکومت میں وزارتی عہدہ سے برخاست کر دیا گیا تھا۔‘‘ دنیا میں بڑھتے اسلاموفوبیا کے درمیان 49 سالہ نصرت کے اس الزام سے برطانوی حکومت کٹہرے میں کھڑی ہو گئی ہے۔ حالانکہ کنزرویٹو پارٹی کے چیف وہپ مارک اسپنسر نے نصرت کے بیان کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
برطانوی اخبار ’دی سنڈے‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق نصرت نے کہا کہ ’’کابینہ میں پھیر بدل کے بعد میں نے سبھی وہپ کے ساتھ ہوئی میٹنگ میں پوچھا تھا کہ مجھے کابینہ سے ہٹانے کے پیچھے کیا سوچ ہے؟ مجھے بتایا گیا تھا کہ مسلمان ہونے کو ایک ایشو کی طرح اٹھایا گیا تھا۔ اس پر بھی فکر ظاہر کی گئی کہ میں پارٹی کے تئیں ایماندار نہیں ہوں کیونکہ میں نے اسلاموفوبیا سے متعلق الزامات کے خلاف پارٹی کے دفاع میں مناسب قدم نہیں اٹھائے۔‘‘
دراصل نصرت غنی کو 2018 میں سابق وزیر اعظم ٹیریجا مے نے برطانیہ کے محکمہ ٹرانسپورٹیشن میں وزارتی عہدہ دیا تھا۔ فروری 2020 میں بورس جانسن کے وزیر اعظم بننے کے بعد کابینہ میں ہوئی تبدیلی کے وقت انھیں ہٹا دیا گیا تھا۔ بہرحال، نصرت غنی کا کہنا ہے کہ اس واقعہ نے پارٹی کے تئیں میرے خود کے ہی بھروسہ کو کمزور کیا ہے۔ میں کئی بار سنجیدگی سے غور کرتی ہوں کہ کیا مجھے رکن پارلیمنٹ بنے رہنا چاہیے۔