شادی کا تصور ہر مذہب میں موجود ہے لیکن رشتۂ ازدواج سے منسلک ہونے کا طریقہ الگ الگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الگ الگ مذاہب میں شادی کے تعلق سے مختلف ضوابط دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے مسلمانوں اور ہندوؤں میں شادی کو لے کر اپنا نظریہ بیان کیا ہے جو قابل فکر ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ مسلم نکاح ایک کانٹریکٹ یعنی معاہدہ ہے جس کے پس پشت کئی معانی موجود ہیں۔ یہ ہندو طبقہ میں ہونے والی شادی کی طرح کوئی رسم نہیں۔ اس کے ٹوٹنے کے باوجود کچھ حقوق اور ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔
بنگلورو باشندہ اعجاز الرحمن کی ایک عرضی پر سماعت کے دوران عدالت نے یہ بات کہی۔ اعجاز نے سائرہ بانو سے شادی کے کچھ مہینوں بعد ہی 25 نومبر 1991 کو طلاق دے دیا تھا۔ بعد میں اعجاز نے دوسری شادی کر لی۔ سائرہ نے 2002 میں گزارہ بھتہ کے لیے ایک مقدمہ کیا تھا۔ اس پر فیملی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ مدعی عرضی کی تاریخ سے اپنی موت تک، یا اپنی دوسری شادی ہونے تک، یا مدعا علیہ کی موت تک 3000 روپے ماہانہ گزارہ بھتہ کی حقدار ہے۔ اعجاز نے کرناٹک ہائی کورٹ میں اسی فیصلے کے خلاف 2011 میں عرضی داخل کی تھی۔ 7 اکتوبر کو ہائی کورٹ نے اس عرضی کو خارج کرتے ہوئے 25000 روپے کا جرمانہ عائد کر دیا۔ ساتھ ہی کہا کہ نکاح ٹوٹنے کے بعد پیدا حالات میں کچھ ذمہ داریوں سے بھاگنا مناسب نہیں۔