گیا: ’’فرحت قادری عظیم المرتبت شاعر تھے۔ انہوں نے غزل کو سب سے بڑی شاعری کہا ہے اور اسے تخیل کی آبرو بھی قرار دیا۔ ان کی شاعری میں گہرائی ہے۔ وہ بہار کے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے نمائندہ شاعر تھے، لیکن ادبی دنیا نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔‘‘ یہ باتیں سینئر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے گزشتہ روز گیا میں ’فرحت قادری: شخصیت اور فن‘ کے موضوع پر منعقد ایک سیمینار کی صدارت کرتے ہوئے کہیں۔ اس موقع پر انھوں نے ڈاکٹر تبسم فرحانہ کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا کہ وہ اپنے والد حضرت فرحت قادری کی کلیات مرتب کر رہی ہیں جو جلد منظر عام پر آئے گی۔

سیمینار کا اہتمامِ ’بزم راہی‘ نے گیا کے ’الحمد اسلامک اسکول‘ میں کیا تھا۔ سیمینار کی نظامت مشہور افسانہ نگار ڈاکٹر احمد صغیر نے کی۔ اس موقع پر بزم راہی کے صدر اور خانقاہ کریمہ، بیتھو شریف کے سجادہ نشیں سید شاہ غفران اشرفی کی صدارت اور بزم کے جنرل سکریٹری خالق حسین پردیسی کی نظامت میں مشاعرہ بھی منعقد ہوا۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بزرگ شاعر مرغوب اثر فاطمی نے کہا کہ ’’فرحت قادری کی شاعری میں سادگی تھی اور ان کی زندگی بھی سادہ تھی۔‘‘ ڈاکٹر احسان تابش نے مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’حضرت فرحت قادری کی غزلیں اور نظمیں انسانی زندگی کی آئینہ دار ہیں۔ ان کی شاعری میں فکری بصیرت موجود ہے۔‘‘ صحافی و شاعر اختر امام انجم، فردوس گیاوی، ندیم جعفری، ڈاکٹر احسان اللہ دانش، نوشاد ناداں وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

(پریس ریلیز)