لو جہاد کا ہنگامہ پہلے ہی پورے ملک میں پھیلا ہے، پھر کیرالہ میں نارکوٹکس جہاد کو لے کر ایک پادری کے بیان نے تنازعہ پیدا کیا، اور اب ’مارکس جہاد‘ کا ہنگامہ برپا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے کروڑی مل کالج میں ایسو سی ایٹ پروفیسر راکیش کمار پانڈے نے کیرالہ بورڈ کے خلاف گزشتہ 5 اکتوبر کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ کیا جس میں ’مارکس جہاد‘ لفظ کا استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد سے ہی تنازعہ جاری ہے۔ پوسٹ میں انھوں نے لکھا ہے ’’ایک کالج کے 20 سیٹوں والے نصاب میں 26 طلبا کو صرف اس لیے داخلہ دینا پڑا کیونکہ ان سبھی کے پاس کیرالہ بورڈ سے 100 فیصد مارکس تھے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے کیرالہ بورڈ نافذ کر رہا ہے – مارکس جہاد۔‘‘ دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ راکیش پانڈے آر ایس ایس سے ملحق نیشنل ڈیموکریٹک ٹیچرس فرنٹ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
پروفیسر راکیش پانڈے کے الزام پر دہلی یونیورسٹی نے وضاحت پیش کرتے ہوئے 7 اکتوبر کو ایک بیان جاری کیا، جس میں واضح لفظوں میں لکھا کہ ’’ایک سنٹرل یونیورسٹی ہونے کے ناطے دہلی یونیورسٹیوں ریاستوں اور اسکول بورڈوں کے مطابق نہیں بلکہ طلبا کی قابلیت کی بنیاد پر درخواست قبول کرتا ہے، اور اس بار بھی ایسا ہی کیا گیا۔ کچھ بورڈس کے طلبا سے متعلق تشہیر کی جا رہی جھوٹی خبر کی دہلی یونیورسٹی مذمت کرتا ہے۔‘‘ اس درمیان کانگریس رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے پروفیسر پانڈے کے بیان کو حیرت انگیز اور مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔