جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کے ذریعہ مسلم طبقہ کو لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ اسکولوں میں پڑھائے جانے سے متعلق مشورہ دیے جانے کے بعد تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔ مشہور شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر نے تو مولانا ارشد مدنی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور واضح لفظوں میں کہا ہے کہ ’’ان لوگوں کے پاس کوئی آئیڈیا نہیں ہے۔ بس ایک مدرسہ ہے جو بالکل پرانا ہو چکا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کس حق سے انھوں نے یہ آئیڈیا دیا۔‘‘

دراصل مولانا ارشد مدنی نے 29 اگست کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’کو-ایجوکیشن‘ سے پرہیز کرنا چاہیے، یعنی لڑکے و لڑکیوں کو پڑھنے کے لیے الگ الگ اسکول میں بھیجنا چاہیے۔ یہ بیان جاوید اختر کو ناگوار لگا اور ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ ’’یہ لوگ کچھ بھی نہیں ہیں۔ ان کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ حکم دیں۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’انھیں لگتا ہے کہ عصمت دری اور جنسی استحصال جیسی چیزیں صرف کو-ایجوکیشن کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی صلاح اور دماغی سوچ گزرے زمانے کی بات ہو چکی ہے۔‘‘

جاوید اختر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’غریب سے غریب مسلم بھی آج چاہتا ہے کہ اس کا بچہ اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کرے، چاہے وہ لڑکوں کا اسکول ہو یا لڑکیوں کا اسکول۔ سبھی کو اچھا اسکول چاہیے۔‘‘