وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں حیدر آباد میں ایک میٹنگ کے دوران پارٹی لیڈران سے کہا تھا کہ ’سنیہہ یاترائیں‘ نکال کر مسلم سماج کے پسماندہ حصہ کو اپنی طرف متوجہ کریں۔ اس بیان نے سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی ماہرین کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مشہور سیاسی تجزیہ نگار ابھے کمار دوبے نے مودی حکومت کی اس ’پسماندہ مسلم سیاست‘ کو طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے کی بہترین ترکیب قرار دیا ہے۔

ابھے کمار نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ ’’مختار عباس نقوی نے ایک بار ٹی وی پر میرے ساتھ ہوئے مذاکرہ میں کہا تھا کہ بی جے پی مسلم ووٹوں کے بغیر ہی اقتدار میں آئی تھی، اور آگے بھی ان کے بغیر ہی اقتدار حاصل کرے گی۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ موہن بھاگوت اور مودی کو ہندو اتحاد میں مسلم ووٹوں کا چھونک لگانا ضروری لگ رہا ہے۔‘‘

ابھے کمار آگے لکھتے ہیں ’’مسلمانوں کے ساتھ رشتے بہتر ہونے کا پہلا اور سب سے بڑا فائدہ بی جے پی کو یہ ہوگا کہ حکومت کی بین الاقوامی شبیہ بدلے گی۔ فی الحال مودی حکومت کی اقلیت مخالف شبیہ کے سبب اس کے جمہوری کردار پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے ہندوستان کی گلوبل ریٹنگ میں گراوٹ آ رہی ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ منفی سے نیچے ’جنک‘ کے درجہ میں نہ پہنچ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو ہندوستان کو بین الاقوامی مالی اداروں سے قرض ملنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘