ندیوں اور سمندر کے آلودہ ہونے کی خبریں عام بات ہیں، لیکن تازہ تحقیق میں ایک نیا انکشاف ہوا ہے۔ جرنل انوائرنمنٹل ٹاکسیکولوجی اینڈ کیمیکل میں شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی تقریباً نصف سے زیادہ ندیاں دواؤں کی وجہ سے آلودہ ہو رہی ہیں۔ یہ تحقیق خوفناک صورت حال کی طرف اشارہ کر رہی ہے، کیونکہ اس سے کروڑوں لوگوں کی زندگی بالواسطہ طور پر متاثر ہو سکتی ہے۔

یہ تحقیق برطانیہ کی یونیورسٹی آف یورک کے چیف الیزاندرا بوجس-مونرائے کی قیادت میں کی گئی ہے۔ محققین نے 104 ممالک کی 258 ندیوں کے 1052 نمونوں کا تجزیہ کیا۔ تحقیق میں پتہ چلا کہ ندیوں کے پانی کا 43.5 فیصد حصہ دواؤں کی وجہ سے آلودہ ہو چکا ہے۔ نمونوں میں محفوظ تصور کی جانے والی سطحوں سے زیادہ سطحوں پر 23 الگ الگ دواؤں کے مرکب ملے۔

ہندوستان کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ دہلی میں جمنا ندی اور حیدر آباد میں کرشنا و موسی ندیوں کے نمونے لیے گئے تھے۔ جمنا اور کرشنا ندی کے پانی میں دواؤں کے اثرات پائے گئے ہیں۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہندوستان اور برطانیہ سمیت کئی ممالک کی ندیوں میں خصوصی طور پر کیفین، پیراسیٹامول اور نکوٹین پائے گئے۔ تناؤ، الرجی، پٹھوں میں اکڑن، درد مٹانے اور طاقت بڑھانے جیسی دواؤں کے عنصر بھی ندیوں کے پانی میں ملے ہیں۔ کچھ تالابوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس کا پانی مانع حمل گولیوں اور مصنوعی ایسٹروجین ہارمون جیسی دواؤں سے خطرناک حد تک آلودہ ہو گیا ہے۔