آسٹریلیا کی اسکاٹ ماریسن حکومت بہت جلد ایک قانون لانے والی ہے جس کو لے کر ملک کی مسلم تنظموں میں ناراضگی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بل میں کچھ ایسے حصے ہیں جو قومی سیکورٹی کے نام پر تفریق کی اجازت دیتے ہیں۔ آسٹریلیا کی تین اہم مسلم تنظیموں کے مطابق پہلے سے ہی حاشیے پر پڑے مسلم طبقہ کو حکومت کا نیا ’مذہبی تفریق قانون‘ پریشانی میں ڈال سکتا ہے۔

مسلم تنظیموں نے بل کے اس حصے پر اظہارِ فکر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قومی سیکورٹی کے پیش نظر ’کسی شخص کا دوسرے شخص کے مذہبی اعتقاد یا سرگرمی کی بنیاد پر اس کے ساتھ تفریق کرنا‘ غیر قانونی نہیں۔ ’مذہبی تفریق قانون‘ میں یہ استثنائی صورت اس وقت نافذ ہوتی ہے جب تفریق کرنے والا شخص قانون کے تحت لاء انفورسمنٹ، قومی سیکورٹی یا رازداری سے متعلق کوئی کام کر رہا ہے۔

آسٹریلیائی مسلم ایڈووکیسی نیٹورک کا کہنا ہے کہ تجویز مسلم طبقہ پر بھاری بوجھ ڈالتا ہے جو پہلے سے ہی غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ نیٹورک نے حقوق انسانی پر پارلیمنٹ کی جوائنٹ کمیٹی کو لکھا کہ ’’افسران کے ذریعہ طبقات یا لوگوں کے ساتھ ان کے اعتقاد کی بنیاد پر تفریق کرنا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔‘‘ اسلامک کونسل آف وکٹوریا نے بھی بل کے مذکورہ حصہ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ کونسل نے پارلیمانی کمیٹی کو اپنی رپورٹ میں کہا ’’مسلمان طویل مدت سے قومی سیکورٹی کی آڑ میں نسلی تفریق کے تحت نشانہ بنتے رہے ہیں۔‘‘