مسجد میں لاؤڈاسپیکر پر اعتراض کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ جب سے مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے مہاراشٹر میں مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے، ہندوستان کچھ دیگر ریاستوں میں بھی یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔ ہندوتوا تنظیمیں خصوصی طور پر مساجد میں لاؤڈاسپیکر کے خلاف بول رہے ہیں۔ مطالبہ پورا نہ ہونے پر مسجد کے پاس تیز آواز میں ہنومان چالیسا بجانے کی دھمکی بھی دی جا رہی ہے۔ تازہ بیان اجین واقع آوہان اکھاڑے کے مہامنڈلیشور سَنت اتولیشانند سے جڑا ہے جنھوں نے ایک ویڈیو جاری کر مساجد میں لاؤڈاسپیکر پر اعتراض کیا ہے۔
سَنت اتولیشانند نے ایک ویڈیو جاری کر کہا ہے کہ ’’مہاکالیشور مندر کے باہر آرتی کی جگہ نماز سنائی پڑتی ہے۔ اس میں آرتی کی آواز دبی رہ جاتی ہے۔ دن میں پانچ مرتبہ مندر کے آس پاس تقریباً 2000 لاؤڈاسپیکر بجتے ہیں۔ اس کی وجہ سے سادھو سَنت اپنی پوجا مکمل نہیں کر پاتے۔‘‘ انھوں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ان لاؤڈاسپیکروں کو بند نہیں کیا گیا تو ہر ہندو کے گھر میں لاؤڈاسپیکر تیز آواز میں بجے گا۔
سَنت اتولیشانند نے مساجد میں لاؤڈاسپیکر کے ساتھ ساتھ مندر کے آس پاس مسلم ہوٹلوں پر بھی اپنا اعتراض ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ مہاکالیشور مندر کے آس پاس تقریباً 180 ہوٹل ایسے ہیں جو مسلمانوں کے ہیں اور ہندو نام سے چلائے جا رہے ہیں۔ سَنتوں نے مقامی انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ ہوٹلوں کے بورڈ پر مالکان کے نام اور نمبر واضح شکل میں لکھے جائیں۔