گجرات کے علاقہ آنند میں ہوٹل ’بلوئیوی‘ کے سامنے گزشتہ 26 اکتوبر کو خوب ہنگامہ ہوا۔ یہ ہنگامہ تقریباً 100 ہندو شدت پسندوں کی بھیڑ نے اس لیے کیا کیونکہ ہوٹل کے تین مالکوں میں سے دو مسلم ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ہندو اکثریتی علاقہ میں مسلم مالکوں والا ہوٹل قابل قبول نہیں، اس لیے ہٹایا جائے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض نعرے بازی بھی کی۔ کچھ لوگوں نے تو ’دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو‘ جیسا نعرہ بھی لگایا۔ ’اس دیش میں اگر رہنا ہے، تو جے شری رام بولنا پڑے گا۔ آنند میں اگر رہنا ہے، تو جے شری رام بولنا پڑے گا‘ جیسی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ بنابین پٹیل نامی شخص کا کہنا تھا کہ یہ ہندو علاقہ ہے، یہاں مسلم ہوٹل ہونا ہندو تہذیب پر داغ ہے۔
مسلمانوں کے خلاف اس نفرت پر مبنی ایک رپورٹ ’دی وائر‘ (ہندی) میں شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آنند کے وویکانند وادی واقع ہوٹل بلوئیوی کے مالک کرشنا پٹیل، حسن علی اور مشتاق علی ہیں۔ ظاہر ہے تین میں سے ایک مالک ہندو ہے، پھر بھی لوگوں کو ہوٹل پر اعتراض ہے۔ وہ بھی تب، جبکہ ہوٹل میں نہ گوشت بنتا ہے اور نہ ہی انڈا۔ کرشنا پٹیل کے والد ہتیش پٹیل کہتے ہیں ’’میں نے اس پروجیکٹ میں سرمایہ لگایا ہے۔ میرے ساتھی حسن اسے چلاتے ہیں۔ اب مقامی لوگ مسلم ساتھی رکھنے پر مجھے ملک کا غدار کہتے ہیں۔‘‘