آسام کے مسلم اکثریتی ضلع درانگ میں مقامی لوگوں اور پولس کے درمیان گزشتہ مہینے ہوئے تصادم کے خلاف اب ملک سے باہر بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ غیر قانونی قبضہ ہٹائے جانے کے نام پر جس طرح اقلیتی طبقہ پر پولس نے مظالم کیے، اس کی کئی ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں۔ اس تشدد کے دوران دو لوگوں کی جان گئی اور متعدد زخمی بھی ہوئے تھے۔ بعد ازاں جمعیۃ علماء ہند، جماعت اسلامی ہند، ایس آئی او سمیت کئی تنظیموں کے وفد نے جائے حادثہ کا دورہ کیا اور ریاست کی بی جے پی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مسلم ممالک کے ادارہ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن) نے بھی مسلم طبقہ کے خلاف استحصال اور تشدد کی مذمت کی ہے۔
او آئی سی نے آسام تشدد کے تعلق سے کچھ ٹوئٹس کیے ہیں۔ ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے ’’او آئی سی جنرل سکریٹری نے ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست آسام میں مسلم طبقہ کے خلاف ’منظم طریقے سے چل رہے استحصال اور تشدد‘ کی تنقید کی ہے۔ ریاست کی سینکڑوں مسلم فیملی سے گھر خالی کرائے جانے کے دوران ہوئے مظاہرہ میں کئی مسلمانوں کی جانیں چلی گئیں۔‘‘ ایک دیگر ٹوئٹ میں او آئی سی نے لکھا ہے ’’اس معاملے میں میڈیا رپورٹس شرمناک ہیں۔ حکومت ہند اور ہندوستانی افسران کو اس معاملے میں ذمہ داری بھرا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔‘‘ او آئی سی کا کہنا ہے کہ کسی بھی مسئلہ کا حل بات چیت کے ذریعہ تلاش کرنا سب سے بہتر ہوتا ہے۔