بی جے پی ترجمان نوپور شرما کے ذریعہ اسلام دشمنی پر مبنی بیان دیے جانے کے بعد کئی مقامات پر حالات کشیدہ ہیں۔ ایک طرف جہاں نوپور کے متنازعہ بیان نے کانپور میں تشدد پھیلانے کا کام کیا، وہیں دوسری طرف کئی علاقوں میں ان کے خلاف جاری احتجاجی مظاہرے سے بھی کشیدگی کا عالم ہے۔ 4 جون کو اتر پردیش کے کئی علاقوں میں نوپور شرما کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ریلی کا اعلان کیا گیا تھا جس کے پیش نظر پولس کی سیکورٹی سخت کر دی گئی۔ حتیٰ کہ مشہور و معروف شاعر منور رانا کی بیٹی سمیہ رانا (جو مظاہرہ کے لیے نکل رہی تھیں) کو بھی گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔
جیسے ہی سمیہ رانا کو گھر میں نظر بند کیے جانے کی خبریں عام ہوئیں، مسلم طبقہ میں ناراضگی پھیل گئی۔ سوشل میڈیا پر پولس انتظامیہ کے اس عمل پر شدید غصہ دیکھنے کو ملا اور یہ سوال اٹھایا گیا کہ جس نے متنازعہ بیان دیا اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو رہی، لیکن جس نے قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کا ارادہ کیا اسے گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔
خاتون سماجی کارکن سید عظمیٰ پروین نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے ’’آئین کی خلاف ورزی کرنے والی نوپور شرما آزاد، آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنے والی کو ہاؤس اریسٹ کر لیا گیا۔ واہ رے انصاف، واہ رے یوگی حکومت۔‘‘ غور طلب ہے کہ کانپور تشدد کے بعد سنیچر کو لکھنؤ میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا تھا۔