ہندوستانی جمہوریت کی بنیادوں کو مضبوطی عطا کرنے میں مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ، اور ذرائع ابلاغ کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک کمزور ہو جائے تو جمہوریت کمزور ہوگی، اور چاروں کمزور پڑ جائیں تو جمہوریت کی عمارت منہدم ہونے سے بچ نہیں سکتا۔
آزادی کے بعد 1950 میں دستور ہند کے نفاذ کے وقت اس ملک کو سیکولر جمہوریہ قرار دیا گیا۔ اس وقت جن لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور تھی، وہ اس دستور کے پابند تھے۔ پھر دھیرے دھیرے مقننہ میں ایسے لوگ آئے جن کی ذہنیت فرقہ واریت سے مسموم تھی۔ نتیجہ کار جمہوریت کا پہلا ستون کمزور ہو گیا۔ جسٹس لویا کی موت اور عدالت عظمیٰ کے چار ججوں کے ذریعہ تاریخ میں چیف جسٹس کے رویہ پر ہونے والی پہلی پریس کانفرنس میں ججوں کے ذریعہ یہ اعلان کہ ’جمہوریت خطرے میں ہے‘ نے جمہوریت کے دوسرے ستون پر بھی زوال کے آثار دکھا دیے۔
جمہوریت کے تیسرے ستون ’انتظامیہ‘ کا حال یہ ہے کہ فائل کو جس قدر مضبوطی سے آپ دوڑانا چاہتے ہیں، رشوت کے اُتنے مضبوط پہیے کا استعمال کرنا ہوگا۔ پھر آئی ذرائع ابلاغ کی باری۔ اخبارات، ٹیلی ویزن وغیرہ کے ذریعے آواز اٹھانے پر حکومت کے کان کھلتے تھے اور پریشانیاں دور ہوتی تھیں۔ لیکن اب یہ بھی حکمراں جماعت کے ہاتھوں بک چکے ہیں۔ جمہوری قدروں کا جنازہ نکلتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہ سکتے۔ حالات کو بدلنے کے لیے ہمیں ایمانی جذبے، اسلامی حوصلے اور پوری قوت کے ساتھ کوشش کرنی ہوگی۔
(تحریر: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی؛ نائب ناظم، امارت شرعیہ، بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ)