سپریم کورٹ نے مذہبی بنیاد پر اشتعال انگیز بیانات کے خلاف داخل ایک عرضی پر 21 اکتوبر کو سماعت کرتے ہوئے محکمہ پولس کی سخت سرزنش کی۔ جسٹس کے ایم جوسف اور جسٹس رشی کیش رائے کی بنچ نے کہا کہ فرقہ وارانہ بنیاد پر اشتعال انگیز بیان دینے والا چاہے جس بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اس پر فوراً کارروائی ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے دہلی، یوپی اور اتراکھنڈ حکومت کو ہدایت دی کہ ایسے بیانات پر کسی کی شکایت کا انتظار نہ کیا جائے، بلکہ پولس از خود نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ درج کرے۔ ساتھ ہی بنچ نے کہا کہ کارروائی میں کوتاہی کو سپریم کورٹ کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔
دراصل مسلمانوں کے خلاف لگاتار اشتعال انگیز بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے شاہین عبداللہ نے عرضی داخل کی تھی۔ شاہین کی طرف سے پیش سینئر وکیل کپل سبل نے بنچ کے سامنے کئی اشتعال انگیز بیانات کا حوالہ دیا۔ انھوں نے بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرویش ورما کے ذریعہ مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کیے جانے کا تذکرہ بھی کیا۔ ساتھ ہی سبل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ’دھرم سنسد‘ معاملے پر جو حکم دیے تھے، ان کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا۔
سبل کی بات سن کر جسٹس رائے نے کہا کہ ’’کیا ایسے بیانات صرف ایک طرف سے ہی دیے جا رہے ہیں؟ کیا مسلم لیڈر نفرت انگیز بیان نہیں دے رہے؟ آپ نے عرضی میں صرف یکطرفہ بات کیوں کہی ہے؟‘‘ اس پر سبل نے کہا کہ جو بھی نفرت پھیلائے، اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔