سری نگر: ’’اس سے انکار ممکن نہیں کہ عصر حاضر کے ادبی منطر نامے پر مابعد جدید رجحان کا بول بالا ہے۔ آنے والی صدیوں میں بھی مابعد جدید رجحان اور مابعد جدید تنقیدی رویے کا ہی سکہ چلے گا کیونکہ یہ رجحان کسی بھی نظریے کو حتمی نہیں سمجھتا۔ یہ تکثیریت اور آزادیٔ اظہار پر اصرار اور معنی پر بٹھائے گئے پہرے کو رد کرتا ہے۔‘‘ ان خیالات کا اظہار کشمیر یونیورسٹی کے تاریخی شعبہ اردو کے زیر اہتمام توسیعی خطبہ بعنوان ’مابعد جدید تنقید: اظہار و امکان‘ پیش کرتے ہوئے تاجک نیشنل یونیورسٹی، دوشنبہ، تاجکستان میں وزیٹنگ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق صدف نے کیا۔
اپنے خطاب میں مشتاق صدف نے قاری اساس تنقید، بین المتونیت، تاریخیت، نئی تاریخیت، ساختیات، پس ساختیات، تانیثی تنقید، اکتشافی تنقید و امتزاجی تنقید پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ نیز جدیدیت اور ترقی پسند نظریات کی خوبیوں اور خاتمے کے اسباب پر اظہار خیال کیا۔ مابعد جدید رجحان اور اس کے اطلاقی اور اظہاری رویوں پر بھی انھوں نے سیر حاصل گفتگو کی۔
پروگرام کی ابتدا میں صدر شعبہ اردو پروفیسر ڈاکٹر عارفہ بشری نے مہمان مقرر ڈاکٹر مشتاق صدف کا بھرپور تعارف پیش کیا۔ توسیعی خطبہ کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ چلا۔ ڈاکٹر مشتاق حیدر نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور آخر میں ڈاکٹر ذاکر نے شکریے کی رسم ادا کی۔ اس انتہائی کامیاب اور معلوماتی توسیعی خطبے میں طلبا و طالبات کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ اردو کی متعدد سرکردہ ادبی شخصییات مثلاً ڈاکٹر ریاض توحیدی، ڈاکٹرآصف ملک وغیرہ نے بھی اس آن لائن خطبے میں شرکت کی۔