ایک طرف ہندوتوا تنظیموں کے ذریعہ قطب مینار کا نام بدل کر ’وشنو استمبھ‘ رکھنے کا مطالبہ زوروں پر ہے، اور دوسری طرف احاطہ میں رکھی گنیش کی مورتیوں کو لے کر بھی تنازعہ جاری ہے۔ اس درمیان قطب مینار احاطہ میں کھدائی کی تیاری شروع ہو گئی ہے۔ ’آج تک‘ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق وزارت ثقافت نے ہدایت دی ہے کہ قطب مینار میں مورتیوں کی آئیکونوگرافی کرائی جائے۔ اس تعلق سے قطب مینار احاطہ میں کھدائی کا کام کیا جائے گا، اور پھر اے ایس آئی (آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا) اپنی رپورٹ وزارت ثقافت کو دے گی۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق سکریٹری برائے ثقافت نے افسران کے ساتھ جائزہ کے بعد قطب مینار احاطہ میں کھدائی کا فیصلہ لیا ہے۔ اس کے تحت قطب مینار کے جنوب میں اور مسجد سے 15 میٹر دوری پر کھدائی کا کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ ’آج تک‘ کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قطب مینار کے علاوہ اننگ تال اور لال کوٹ قلعہ میں بھی کھدائی کا عمل انجام پائے گا۔
قطب مینار احاطہ میں کھدائی کے فیصلے سے پہلے سکریٹری برائے ثقافت گووند موہن نے 12 افراد کی ٹیم کے ساتھ علاقے کا جائزہ لیا۔ اس ٹیم میں 3 مورخین، اے ایس آئی کے 4 افسران اور محققین موجود تھے۔ اس معاملے میں اے ایس آئی افسران کا کہنا ہے کہ قطب مینار میں 1991 کے بعد سے کھدائی کا کام نہیں ہوا ہے۔ کئی تحقیقی کام زیر التوا ہیں جس کی وجہ سے یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔