نئی دہلی: ’’سابق پرو-وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ممتاز نباتاتی سائنسداں پروفیسر تسنیم فاطمہ کی سادہ زندگی اور مذہبی و تہذیبی اقدار کی پاسداری کے ساتھ اعلیٰ سائنسی تحقیقات ہندوستانی مسلم خواتین کے لیے مثالی نمونہ ہیں۔‘‘ ان خیالات کا اظہار معروف دانشور پروفیسر اخترالواسع نے پروفیسر تسنیم فاطمہ کے اعزاز میں فورم فور انٹلکچوئل ڈسکورس کے زیرِ اہتمام منعقد کی گئی باوقار تقریب میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر صدر شعبۂ بایو سائنسز جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر قاضی محمد رضوان الحق نے پروفیسر فاطمہ کے اعلیٰ سائنسی انکشافات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ آج جبکہ دنیا ماحولیاتی بحران اور آکسیجن کے فقدان جیسے سنگین مسئلے سے دو چار ہے، آکسیجن کے فروغ میں ان کی سائنسی تحقیقات غیر معمولی ہیں۔
تقریب میں پروفیسر خالد محمود نے جذباتی کیفیت میں کہا کہ ’’بحیثیت شریکِ حیات پروفیسر تسنیم فاطمہ کے بغیر میں اپنے وجود کو ناقص تصور کرتا ہوں۔ انھوں نے اپنے تمام اعلیٰ سائنسی کارناموں میں معراجِ کمال حاصل کرنے کے باوجود خود کو میری نگہداشت کے لیے مکمل طور پر وقف کررکھا ہے۔‘‘ معتبر شاعر و ترجمہ نگار ڈاکٹر اے. نصیب خان نے پروفیسر فاطمہ کے حوالے سے کہا کہ وہ صرف ایک عظیم ماہرِ نباتات ہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کی منتظم بھی ہیں۔ تقریب کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مبشر نے کہا کہ خدا سبھی کو فاطمہ جیسا مقدس نام عطا نہیں کرتا۔ پروفیسر تسنیم فاطمہ بھی اسی پاکیزہ نسبت کے زیرِ اثر بیک وقت علم اور سادگی دونوں کی معراج پر متمکن ہیں۔