کیرالہ ہائی کورٹ نے 26 اگست کو مسجد سے متعلق ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے انتہائی تلخ تبصرہ کیا۔ عدالت نے کہا کہ قرآنی آیات میں یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ ہر نکڑ اور کونے میں ایک مسجد ضروری ہے۔ حدیث یا قرآن میں نہیں کہا گیا ہے کہ مسجد ہر مسلم کے گھر کے بغل میں واقع ہونی چاہیے۔ دوری کوئی پیمانہ نہیں ہے، لیکن مسجد تک رسائی اہم ہے۔

دراصل کیرالہ کے ایک علاقہ میں نئی مسجد تعمیر کرنے کا منصوبہ تھا، لیکن عدالت نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ تقریباً 36 مساجد آس پاس کے علاقے میں موجود ہیں، اس لیے عدالت نے کہا کہ وہاں مزید ایک مسجد کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام کے ماننے والے قریب کی دیگر مساجد میں جا سکتے ہیں۔ جسٹس پی وی کنہی کرشنن نے کہا کہ ’’کیرالہ مذہبی مقامات سے بھرا ہوا ہے۔ ہم مذہبی عبادت گاہوں اور پریئر ہال (دعاء کی جگہ) سے تھک چکے ہیں اور ہم انتہائی استثنائی معاملوں کو چھوڑ کر کسی بھی نئے مذہبی مقام یا عبادت گاہ کی تعمیر کی اجازت دینے کی حالت میں نہیں۔‘‘

عدالت نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ ہندوستانی آئین کے شق 26(اے) میں کہا گیا ہے کہ ہر مذہبی طبقہ یا اس کے کسی بھی فرد کو مذہبی مقاصد کے لیے ادارہ قائم کرنے اور بنائے رکھنے کا حق ہوگا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ملک کے گوشے گوشے میں مذہبی مقامات کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ کیرالہ ایک بہت چھوٹی ریاست ہے۔