ایک طرف ہندوتوا تنظیمیں قطب مینار کو ہندوؤں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں، اور دوسری طرف قطب مینار میں واقع مسجد قوت الاسلام کے احاطہ میں رکھی بھگوان کی مورتیوں کو ہٹایا جائے یا نہیں، اس تعلق سے عدالت سماعت کر رہی ہے۔ سماعت کے دوران دہلی کے ساکیت کورٹ نے فی الحال محکمہ آثار قدیمہ کو قطب مینار کے احاطہ سے مورتیاں ہٹانے پر روک لگا دی ہے۔ وکیل ہری شنکر جین کی طرف سے داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ قوت الاسلام مسجد احاطہ میں بھگوان گنیش کی دو مورتیاں نیچے پڑی ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔
عرضی گزار نے مطالبہ کیا ہے کہ بھگوان گنیش کی مورتیوں کو لے کر نیشنل مونومنٹ اتھارٹی (این ایم اے) کے ذریعہ آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو دیے گئے مشورے کے مطابق انھیں نیشنل میوزیم میں رکھنے کی جگہ احاطہ میں ہی مناسب جگہ پر رکھی جانی چاہئیں۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قطب مینار احاطہ میں جین تیرتھنکر رشبھ دیو اور بھگوان وشنو، بھگوان گنیش، بھگوان شیو، دیوی گوری، بھگوان سوریہ اور ہنومان جی سمیت 27 مندروں کے دیگر دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں موجود ہیں۔
اس درمیان اے ایس آئی کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل بی آر منی نے کہا ہے کہ قطب مینار کے احاطہ میں ڈھانچوں کے ساتھ کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ کے بعد اس کو سال 1993 میں یونیسکو سے ملا عالمی وراثت کا درجہ رد کر دیا جائے گا۔